Wednesday 13 March 2019

موبائل اور کمپيوٹر پر گیم کھل کر پیسہ کمانے کا شرعی حکم

*⚖سوال و جواب⚖*

*🖥مسئلہ نمبر 733🖥*

(کتاب الحظر و الاباحہ، باب اللھو)

 *موبائل اور کمپیوٹر پر گیم (Game application) کھیل کر پیسہ کمانے کا حکم*

 *سوال:* موبائیل اور کمپیوٹر پر بعض ایسے اپلیکیشن دستیاب ہیں جن میں آن لائن مختلف قسم کے میچ اور کھیل کھیلے جاتے ہیں؛ مثلاً کرکٹ اور فروٹ کٹنگ کا کام وغیرہ، جس کی صورت کچھ اس طرح کی ہوتی ہے کہ اس میں شرکت کے لئے ٹوکن یا کچھ پیسے لیے جاتے ہیں، اس فیس کے بعد شرکت ہوتی ہے اور میچ کھیلنے پر ریوارڈ انعام کے نام پر ایپ ایجنسی کچھ روپیے دیتی ہے،
دریافت طلب بات یہ ہے کہ کیا اس طرح کی رقم کا استعمال درست ہے یا نہیں؟
ذرا تفصیلی جواب مع حوالہ ارسال کرکے شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں. (بندۂ خدا، انڈیا)

 *بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم*

 *الجواب وباللہ التوفیق*

انسان کو اللہ تعالیٰ نے حقیقتاً اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اور حلال روزی کی طلب کا اسے مکلف بنایا ہے، کھیل کود انسان کی زندگی کا مقصد نہیں ہے؛ اسی لیے شریعت اسلامی میں کھیل کود کو صرف اس حد تک پسند کیا گیا ہے جس سے انسان کی صحت عمدہ اور قوت بحال ہوتی ہو، چنانچہ ایسے کھیل جو جسمانی قوت اور صحت و نشاط میں معاون نہ ھوں انہیں پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا ہے، ظاہر ہے کہ موبائل اور کمپیوٹر وغیرہ پر گیم کھیلنے سے یہ مقاصد تو یقیناً نہیں حاصل ہونگے؛ بلکہ ذہن و دماغ پر بوجھ اور نگاہ میں کمزوری اور قیمتی اوقات کا ضیاع لازم آئے گا؛ اس لئے موبائل اور کمپیوٹر پر جائز کھیل آس حد تک کھیلنا تو درست ہے جس سے تفریح طبع ہوسکتی ہو؛ لیکن اس کو مقصد بنا کر اور پیسہ کمانے کی غرض سے کھیلنا یقیناً بہتر نہیں، بطورِ خاص جب ایسے کھیل ھوں جس میں انسانوں اور مرد و خواتین کی تصویریں ہوں؛ جیسے کرکٹ اور فٹبال وغیرہ کہ اس میں انسانی تصویریں ہوتی ہیں؛ بلکہ کبھی کبھی نیم برہنہ خواتین کی بھی تصویریں آتی رہتی ہیں؛ اس لئے ایسے گیمز سے اجتناب ضروری ہے، کسب معاش کے لیے ایسے گیمز کے بجائے کوئی عمدہ پیشہ اختیار کرنا چاہیے(١) البتہ اگر کسی نے کھیل کر کچھ رقم حاصل کرلی ہے تو امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کی تحقیق کے مطابق کراہت کے ساتھ استعمال کر سکتا ہے(٢)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔

 *📚والدليل على ما قلنا📚*

(١) وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات (56)

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُدْخِلُ بِالسَّهْمِ الْوَاحِدِ ثَلَاثَةَ نَفَرٍ الْجَنَّةَ : صَانِعَهُ يَحْتَسِبُ فِي صَنْعَتِهِ الْخَيْرَ، وَالرَّامِيَ بِهِ، وَمُنْبِلَهُ ، وَارْمُوا وَارْكَبُوا، وَأَنْ تَرْمُوا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ تَرْكَبُوا، لَيْسَ مِنَ اللَّهْوِ إِلَّا ثَلَاثٌ : تَأْدِيبُ الرَّجُلِ فَرَسَهُ، وَمُلَاعَبَتُهُ أَهْلَهُ، وَرَمْيُهُ بِقَوْسِهِ وَنَبْلِهِ، وَمَنْ تَرَكَ الرَّمْيَ بَعْدَمَا عَلِمَهُ رَغْبَةً عَنْهُ فَإِنَّهَا نِعْمَةٌ تَرَكَهَا ". أَوْ قَالَ : " كَفَرَهَا ".
حكم الحديث: ضعيف. (سنن أبي داود حديث نمبر ٢٥١٣ كِتَابُ الْجِهَادِ  | بَابٌ : فِي الرَّمْيِ)

وَلَيْسَ مِنَ اللَّهْوِ إِلَّا ثَلَاثٌ : تَأْدِيبُ الرَّجُلِ فَرَسَهُ، وَمُلَاعَبَتُهُ امْرَأَتَهُ، وَرَمْيُهُ بِقَوْسِهِ، وَمَنْ تَرَكَ الرَّمْيَ بَعْدَمَا عَلِمَهُ رَغْبَةً عَنْهُ فَإِنَّهَا نِعْمَةٌ تَرَكَهَا ".
حكم الحديث: حديث حسن بطرقه وشواهده وهذا إسناد ضعيف. (مسند احمد رقم الحديث ١٧٣٣٥ مُسْنَدُ الشَّامِيِّينَ  | حَدِيثُ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ)

عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه)). قال: هذا حديث غريب (سنن الترمذي حدیث نمبر 2487)

قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((الْحَلاَلُ بَيِّنٌ، وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا أُمُورٌ مُشْتَبِهَةٌ، فَمَنْ تَرَكَ مَا شُبِّهَ عَلَيْهِ مِنَ الإِثْمِ كَانَ لِمَا اسْتَبَانَ أَتْرَكَ، وَمَنِ اجْتَرَأَ عَلَى مَا يَشُكُّ فِيهِ مِنَ الإِثْمِ أَوْشَكَ أَنْ يُوَاقِعَ مَا اسْتَبَانَ، وَالْمَعَاصِي حِمَى اللَّهِ، مَنْ يَرْتَعْ حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكْ أَنْ يُوَاقِعَهُ)).  (الصحيح للبخاري حديث نمبر 2051)

كره تحريما العب بالنرد.... لأن من اشتغل به ذهب عناءه الدنيوي وعناءه الاخروي فهو حرام و كبيرة (رد المحتار على الدر المختار كتاب الحظر و الاباحة زكريا)

و عن أبي يوسف رحمه الله: من يديم النظر في اللعب و النرد و الشطرنج أخاف أن يصير فاسقا. (الفتاوى التاتارخانية ١٩٤/١٨ الفصل ١٨، زكريا جديد)

(٢) يطيب له الأجر عنده و عندهما يكره. (رد المحتار ٣٨٦/٦ كتاب الحظر و الإباحة)

 *كتبه العبد محمد زبير الندوي*
مورخہ 4/7/1440
رابطہ 9029189288

 *دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*

No comments:

Post a Comment

Modren garments

It is, therefore, Haram to wear almost skin- tight clothes, mini dress, micro-dress , see-through, and all sorts of top- less garments...