Saturday 30 March 2019

🌴اپریل فول کی حقیقت اور منانے کا شرعی حکم

🌕مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ

◀سوال: یکم اپریل دنیا بھر میں عملی مذاق اور دوسروں کو بےوقوف بنانے کے تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس میں جہاں مغربی اقوام شامل ہوتی ہیں ،مسلمان بھی پیچھےنہیں رہتے۔ جھوٹی خبروں کی بنیاد پر دوسروں کو پریشان کیا جاتاہے ۔بسا اوقات ایسے سنگین جھوٹ بولے جاتے ہیں جو انسانی زندگی کے ضائع ہونے کا سبب بن جاتے ہیں۔اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ اپریل فول منانا اور اس قسم کا مذاق کرنا اسلامی نقطہ نظر سے کیسا ہے؟

السائل محمدنصراللہ۔ رحیم یارخان

◀جواب: اپریل فول کے متعلق کافی سوالات آئے ہیں اور اس میں عام طور پر مسلمان لاعلمی کی بناء پر شریک ہوجاتے ہیں اس لیے اس کا جواب تفصیلی ذکرکیا جاتاہے۔

یہ بات نہایت قابل غور ہے کہ آج کا مسلمان مغربی افکار اور نظریات سے اتنا مرعوب ہوچکا ہے کہ اسے ترقی کی ہر منزل مغرب کی پیروی میں ہی نطر آتی ہے۔ ہر وہ قول وعمل جو مغرب کے ہاں رائج ہوچکا ہے اس کی تقلید لازم سمجھتا ہے ،قطع نظر اس سے کہ وہ اسلامی افکار کے موافق ہے یا مخالف ۔حتی کہ یہ مرعوب مسلمان ان کے مذہبی شعار تک اپنانے کی کوشش کرتاہے ۔”اپریل فول“بھی ان چند رسوم ورواج میں سے ایک ہےجس میں جھوٹی خبروں کو بنیادبناکر لوگوں کا جانی ومالی نقصان کیا جاتا ہے۔ انسانیت کی عزت وآبرو کی پرواہ کیے بغیر قبیح سے قبیح حرکت سے بھی اجتناب نہیں کیا جاتا۔اس میں شرعاً واخلاقاً بےشمار مفاسد پائے جاتے ہیں جو مذہبی نقطہ نظر کے علاوہ عقلی واخلاقی طور پر بھی قابل مذمت ہیں۔

اپریل فول کی تاریخ: اپریل فول کو اگر تاریخ کے آئینہ میں دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس کی بنیاد اسلام اور مسلم دشمنی پر رکھی گئی ہے۔ تاریخی طورپریہ بات واضح ہے کہ اسپین پر جب عیسائیوں نے دوبارہ قبضہ کیا تو مسلمانوں کا بے تحاشا خون بہایا۔آئے روز قتل وغارت کے بازار گرم کیے۔ بالآخر تھک ہار کر بادشاہ فرڈینینڈنے عام اعلان کروایا کہ مسلمانوں کی جان یہاں محفوظ نہیں ،ہم نے انہیں ایک اور اسلامی ملک میں بسانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جو مسلمان وہاں جانا چاہیں ان کے لیے ایک بحری جہاز کا انتظام کیا گیا ہے جو انہیں اسلامی سرزمین پر چھوڑ آئے گا۔حکومت کے اس اعلان سے مسلمانوں کی کثیر تعداد اسلامی ملک کے شوق میں جہاز پر سوار ہوگئی۔جب جہاز سمندر کے عین درمیان میں پہنچا تو فرڈینینڈ کے فوجیوں نے بحری جہاز میں بذریعہ بارود سوراخ کردیا اور خود بحفاظت وہاں سے بھاگ نکلے۔دیکھتے ہی دیکھتے پورا جہاز غرقاب ہوگیا۔ عیسائی دنیا اس پر بہت خوش ہوئی اور فرڈینینڈکو اس شرارت پر داد دی۔یہ یکم اپریل کا دن تھا۔آج یہ دن مغربی دنیا میں مسلمانوں کو ڈبونے کی یاد میں منایا جاتا ہے ۔یہ ہے اپریل فول کی حقیقت!

مسلمانوں کا اپریل فول منانا جائز نہیں،کیونکہ اس میں کئی مفاسد ہیں جو ناجائز اور حرام ہیں۔

اس میں غیرمسلموں سے مشابہت پائی جاتی ہے اور حدیث مبارکہ میں ہے:

مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ

(سنن ابی داؤد، رقم:4033)

کہ جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔تو جو لوگ اپریل فول مناتے ہیں اندیشہ ہے کہ ان کا انجام بروز قیامت یہود ونصاری کے ساتھ ہو۔ایک واضح قباحت اس میں یہ بھی ہے کہ جھوٹ بول کر دوسروں کو پریشان کیا جاتا ہے اور جھوٹ بولنا شریعت اسلامی میں ناجائز اور حرام ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے:

إنَّ الصِّدْقَ بِرٌّ، وإنَّ البِرَّ يَهْدِي إلى الجنَّة، وإن الكَذِبَ فُجُورٌ، وإنَّ الفُجُورَ يَهدِي إلى النّار

(صحیح مسلم، رقم الحدیث:2607)

ترجمہ: سچ بولنا نیکی ہے اور نیکی جنت لے جاتی ہے اور جھوٹ بولنا گناہ ہے اور گناہ [جہنم کی] آگ کی طرف لے جاتا ہے۔بلکہ ایک حدیث مبارک میں تو جھوٹ بولنے کو منافق کی علامت قرار دیا گیا ہے:

آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ

(صحیح البخاری، رقم الحدیث:33)

ترجمہ: منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ جب بات کرتاہے تو جھوٹ بولتا ہے، وعدہ کرتا ہے تو خلاف ورزی کرتا ہے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرتا ہے۔

اس دن جھوٹ کی بنیاد پر بسا اوقات دوسروں کے بارے میں غلط سلط باتیں پھیلا دی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کی عزت خاک میں مل جاتی ہے ،جو اشدمذموم وحرام ہے حدیث میں ہے: إ نَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا

(صحیح البخاری، رقم الحدیث:1739)

ترجمہ: تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزت ایک دوسرے پر اس طرح حرام ہے جیسے اس دن کی حرمت اس مہینے اور اس شہر میں ہے۔

اس دن مذاق میں دوسروں کو ڈرایا دھمکایا بھی جاتا ہے جو بسا اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ 2 اپریل کے اخبارات سے لگایا جا سکتا ہے۔غرض اس فعل میں کئی مفاسد پائے جاتے ہیں۔

Wednesday 27 March 2019

ABU TALIB,S DEATH

Abu Talib became very frail due to the hardships he had to suffer during the three-year boycott. Very soon, after the boycott was lifted, he died. This was the ninth year of prophethood. At the time Ali was nineteen years old,
The tribal system prevalent in the time of the Prophet was one, which gave protection to individuals. It was seldom that anyone could survive without it. After Abu Talib,s death, his responsibilities descended upon Abu Lahab. Since Abu Lahab refused to extend any protection to him, the Prophet began seeking the protection of some other tribe, so that he could continue his preaching work. Eventually, Mutim ibn Adi agreed to protect the Prophet, who shielded by the swords of Mutim,s sons, once again entered the city walls.


Writer...

                 ABDUR-RAHEEM AZMI
         

Monday 25 March 2019

تالاب کی مردہ مچھلی کھانے کا شرعی حکم

*⚖سوال و جواب⚖*

*🐟مسئلہ نمبر 746🐟*

(کتاب الذبائح، باب الحیوان الذی یوکل)

 *تالاب کی مردہ مچھلی کھانے کا حکم*

 *سوال* اگر تالاب ہی میں مچھلی مر جائے تو اسکا کھانا کیسا ہے؟ شام کو یا رات ہی میں مرے اور صبح نکال کر کھائی جائے۔ (ابو الکلام قاسمی، یوپی)

 *بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم*

 *الجواب وباللہ التوفیق*

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حلال جانوروں میں سے صرف دو جانور ایسے ہیں جنہیں مردہ ہونے کے باوجود بھی کھانا جائز ہے، ایک ٹِڈی جسے عربی میں "الجَرادُ" اور انگریزی میں grasshopper کہتے ہیں، دوسرے مچھلی، ان جانوروں کے علاوہ کوئی حلال جاندار بغیر ذبح کیے جائز نہیں ہے؛ چنانچہ ایسی مچھلی جو پانی میں اپنی موت مر کر الٹی نہ اترائی ہو بلکہ کسی آفت کی وجہ سے مرگئی ہو مثلاً پانی کی گرمی، پانی کی ٹھنڈک یا دوا کے چھڑکاؤ یا کسی شکاری کے ڈنڈے کی ضرب یا کسی چیز کے ڈالنے کی وجہ سے مرگئی ہو تو پھر ایسی مچھلی کو مردہ ہونے کے باوجود بھی کھانا درست ہے، البتہ ایسی مچھلی جو اپنی موت مر کر اس طرح الٹ گئی ہو کہ پیٹھ نیچے اور پیٹ اوپر ہوگیا ہو تو اس کو کھانا جائز نہیں ہے،  اپنی موت مرنے اور آفت سے مرنے کی پہچان فقہاء نے یہ لکھی ہے کہ اگر وہ مرنے کے بعد اس طرح الٹ جائے کہ پیٹھ نیچے اور پیٹ اوپر ہوجائے تو یہ اپنی موت مرنے کی وجہ سے ہوگا اور اس کا کھانا درست نہیں ہوگا اور اگر اس طرح نہ الٹی ہو تو وہ آفت کی وجہ سے مرنے والی سمجھی جائے گی اور اس کا کھانا درست ہوگا(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔

 *📚والدليل على ما قلنا📚*

(١) وَهُوَ الَّذِي سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَأْكُلُوا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا وَتَسْتَخْرِجُوا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (النحل 14)

 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " أُحِلَّتْ لَنَا مَيْتَتَانِ : الْحُوتُ، وَالْجَرَادُ ".
حكم الحديث: صحيح. (سنن ابن ماجه رقم الحديث ٣٢١٨ كِتَاب الصَّيْدِ  | بَابٌ : صَيْدُ الْحِيتَانِ وَالْجَرَادِ)

عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أُحِلَّتْ لَنَا مَيْتَتَانِ وَدَمَانِ، فَأَمَّا الْمَيْتَتَانِ : فَالْحُوتُ، وَالْجَرَادُ، وَأَمَّا الدَّمَانِ : فَالْكَبِدُ، وَالطِّحَالُ ".
حكم الحديث: حديث صحيح، وهذا سند ضعيف. (مسند أحمد رقم الحديث ٥٧٢٣ مُسْنَدُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ)

و لا يحل حيوان مائي إلا السمك الذي مات بآفة.... غير الطافي على وجه الماء الذي مات حتف أنفه و هو ما بطنه من فوق فلو ظهره من فوق فليس بطاف فيؤكل. (الدر المختار ٢٢٩/٢ كتاب الذبائح)

الطافي من السمك هو الذي يموت في الماء حتف أنفه فيعلو و يظهر. )قواعد الفقه ص ٣٦٠ التعريفات الفقهية)

 *كتبه العبد محمد زبير الندوي*
مورخہ 17/7/1440
رابطہ 9029189288

 *دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*

Abu Talib,s unswerving support for the Prophrt

The Quraysh once presented a demand to the chief of the Banu Hashim, the Prophet,s uncle Abu Talib, that he should expel his nephew from the tribe. Only then would they be able to slay the Prophet. Abu Talib,s honour prevented him from taking this step. When Abu Talib, at the Quraysh,s behest, asked his nephew to stop criticizing their gods, the Prophet became concerned that his uncle was going to hand him over to the Quraysh. For just one moment Abu Talib hesitated between the enmity of his people and the cause of his nephew. Immediately, he called the Prophet back. "Go forth, my nephew," he said, and say what you will. By the same Allah I swear I shall never betray you to your enemies.                                                                                                                                             
Writer...
                ABDUR-RAHEEM AZMI                     

Tuesday 19 March 2019

Allah is Merciful:

Allah is Merciful. We are never so sinful that Allah is unwilling to take us back into his Mercy, so long as we turn to him in repentance. In what measure Allah will forgive us? It comes in a Hadith,  "Allah the Almighty has said: O son of Adam, so long as you call upon Me and ask to me, I shall forgive you for what you have done, and I shall not mind. O son of Adam were your sins to reach the clouds of the sky and were you then to ask forgiveness of me, I would forgive you. O son of Adam, were you to come to me, ascribing no partner to me, I would bring you forgiveness nearly as
great as it.


Writer......
                    ABDUR-RAHEEM AZMI

Sunday 17 March 2019

Many problems Lead to the battle of Badr:

The Prophet ﷺ‎    and his companions had migrated to Madinah. They had received a warm welcome there. They stayed there peacefully; preaching and inviting more people to Islam. But the Quraysh continued to remain very unfriendly towards the Muslims. They could not tolerate the rising fame of Allah,s Messenger ﷺ‎    . The rapid spread of Islam increased their anxiety. 
They, therefore, always looked for a chance to cause trouble and destroy the resettled Muslims of Madinah. 



Writer...... ABDUR RAHEEM AZMI

Friday 15 March 2019

Our National flag

The Indian National Flag is the symbol of the land and people of  India. Our National Flag is a tricolour panel made up of three rectangular panels or sub-panels of equal widths. The colour of the top panel is India Saffron (Kesari) and that of the bottom is India green. The middle panel is white; bearing at this centre the design of the Ashoka Chakra in navy blue colour with 24 equally spaced spokes. The Ashoka Chakra is visible on both sides of the Flag in the centre of the white panel. The Flag is rectangular in shape with the ratio of the length of the height (width)being 3:2. 
Dr S. Radhakrishnan explained about the National Flag in the Constituent Assembly which adopted it, "Bhagwa or the saffron colour denotes renunciation or disinterestedness. The white in the centre is light, the path of truth to guide our conduct. The green shows our relation to the soil, our relation to the plant life here on which all other life depends. The Ashoka Wheel is the wheel of the law of dharma. Truth or Satya, dharma or virtue ought to be the controlling principles of those who work under this Flag. Again, the wheel denotes motion. There is life in movement. India must move and forward."
If done properly, there is no restriction on the display of the National Flag by common people, private organisations or educations. Consistent with the dignity and honour of the Flag as detailed in the Flag Code of India, anyone may hoist display the National Flag on all days and occasions, ceremonial or otherwise.
Where the practice is to fly the Flag on any public building, it must be flown on the building on all days including Sundays and holidays and, except as provided in the code, it shall be flown from sunrise to sunset irrespective of weather condition. The Flag may be flown on such a building at night also but this should be only one very special occasions.
The Flag must not be used as a drapery in any form except in State / Military/ Central Paramilitary Force funerals. In such cases all so the Flag must not be lowered into the grave or burnt in the pyre. The Flag must not be draped over the hood, top, sides or back of a vehicle, train or boat. It must not be used or stored in such a manner as may damage or soil it, When the Flag is in a damaged or soiled condition, it must not be cast aside or disrespectfully disposed of but be destroyed as a whole in private, preferably by burning. The Flag must not be used as a covering for a building. Although the Flag can be used as a costume or uniform, it should not be used as undergarments or below the waist. It must not be embroidered or printed upon cushions, napkins, etc. Lettering of any kind must not be put upon the Flag. It must not be used in any form of advertisement, Showing disrespect or insult to the National Flag is a punishable offence.
The National Flag must not be flown from a single masthead simultaneously with any other Flag. There must be separate mastheads for different Flags. When a foreign dignitary travels in a car provided by Government, the National Flag is flown on the right side of the car and the Flag of the foreign countries on the left side of the car.
In the event of the death of the president, the Vice president or the Prime Minister, the National Flag is half-masted throughout the country.
Over the last five decades, several people including members of the armed forces have laid down their lives to keep the tricolour flying in its full glory. We must salute and cherish our National Flag.

   WRITER....... ABDUR-RAHEEM AZMI


Thursday 14 March 2019

The wording of Istighfar.

We may call on allah in tha quiet of our heart .
even using our own words or without using any words at all. Allah always listens to the petitions of his servants. but allah's messenger ﷺ‎ has taught us various ways of duing so.
you should learn some of  them by heart and call on allah by them.
               
         أستغفر اللهْ أستغفر اللهْ
I seek forgiveness of Allah.

writer....     ABDURRAHEEM AZMI   

Wednesday 13 March 2019

موبائل اور کمپيوٹر پر گیم کھل کر پیسہ کمانے کا شرعی حکم

*⚖سوال و جواب⚖*

*🖥مسئلہ نمبر 733🖥*

(کتاب الحظر و الاباحہ، باب اللھو)

 *موبائل اور کمپیوٹر پر گیم (Game application) کھیل کر پیسہ کمانے کا حکم*

 *سوال:* موبائیل اور کمپیوٹر پر بعض ایسے اپلیکیشن دستیاب ہیں جن میں آن لائن مختلف قسم کے میچ اور کھیل کھیلے جاتے ہیں؛ مثلاً کرکٹ اور فروٹ کٹنگ کا کام وغیرہ، جس کی صورت کچھ اس طرح کی ہوتی ہے کہ اس میں شرکت کے لئے ٹوکن یا کچھ پیسے لیے جاتے ہیں، اس فیس کے بعد شرکت ہوتی ہے اور میچ کھیلنے پر ریوارڈ انعام کے نام پر ایپ ایجنسی کچھ روپیے دیتی ہے،
دریافت طلب بات یہ ہے کہ کیا اس طرح کی رقم کا استعمال درست ہے یا نہیں؟
ذرا تفصیلی جواب مع حوالہ ارسال کرکے شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں. (بندۂ خدا، انڈیا)

 *بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم*

 *الجواب وباللہ التوفیق*

انسان کو اللہ تعالیٰ نے حقیقتاً اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اور حلال روزی کی طلب کا اسے مکلف بنایا ہے، کھیل کود انسان کی زندگی کا مقصد نہیں ہے؛ اسی لیے شریعت اسلامی میں کھیل کود کو صرف اس حد تک پسند کیا گیا ہے جس سے انسان کی صحت عمدہ اور قوت بحال ہوتی ہو، چنانچہ ایسے کھیل جو جسمانی قوت اور صحت و نشاط میں معاون نہ ھوں انہیں پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا ہے، ظاہر ہے کہ موبائل اور کمپیوٹر وغیرہ پر گیم کھیلنے سے یہ مقاصد تو یقیناً نہیں حاصل ہونگے؛ بلکہ ذہن و دماغ پر بوجھ اور نگاہ میں کمزوری اور قیمتی اوقات کا ضیاع لازم آئے گا؛ اس لئے موبائل اور کمپیوٹر پر جائز کھیل آس حد تک کھیلنا تو درست ہے جس سے تفریح طبع ہوسکتی ہو؛ لیکن اس کو مقصد بنا کر اور پیسہ کمانے کی غرض سے کھیلنا یقیناً بہتر نہیں، بطورِ خاص جب ایسے کھیل ھوں جس میں انسانوں اور مرد و خواتین کی تصویریں ہوں؛ جیسے کرکٹ اور فٹبال وغیرہ کہ اس میں انسانی تصویریں ہوتی ہیں؛ بلکہ کبھی کبھی نیم برہنہ خواتین کی بھی تصویریں آتی رہتی ہیں؛ اس لئے ایسے گیمز سے اجتناب ضروری ہے، کسب معاش کے لیے ایسے گیمز کے بجائے کوئی عمدہ پیشہ اختیار کرنا چاہیے(١) البتہ اگر کسی نے کھیل کر کچھ رقم حاصل کرلی ہے تو امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کی تحقیق کے مطابق کراہت کے ساتھ استعمال کر سکتا ہے(٢)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔

 *📚والدليل على ما قلنا📚*

(١) وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات (56)

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُدْخِلُ بِالسَّهْمِ الْوَاحِدِ ثَلَاثَةَ نَفَرٍ الْجَنَّةَ : صَانِعَهُ يَحْتَسِبُ فِي صَنْعَتِهِ الْخَيْرَ، وَالرَّامِيَ بِهِ، وَمُنْبِلَهُ ، وَارْمُوا وَارْكَبُوا، وَأَنْ تَرْمُوا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ تَرْكَبُوا، لَيْسَ مِنَ اللَّهْوِ إِلَّا ثَلَاثٌ : تَأْدِيبُ الرَّجُلِ فَرَسَهُ، وَمُلَاعَبَتُهُ أَهْلَهُ، وَرَمْيُهُ بِقَوْسِهِ وَنَبْلِهِ، وَمَنْ تَرَكَ الرَّمْيَ بَعْدَمَا عَلِمَهُ رَغْبَةً عَنْهُ فَإِنَّهَا نِعْمَةٌ تَرَكَهَا ". أَوْ قَالَ : " كَفَرَهَا ".
حكم الحديث: ضعيف. (سنن أبي داود حديث نمبر ٢٥١٣ كِتَابُ الْجِهَادِ  | بَابٌ : فِي الرَّمْيِ)

وَلَيْسَ مِنَ اللَّهْوِ إِلَّا ثَلَاثٌ : تَأْدِيبُ الرَّجُلِ فَرَسَهُ، وَمُلَاعَبَتُهُ امْرَأَتَهُ، وَرَمْيُهُ بِقَوْسِهِ، وَمَنْ تَرَكَ الرَّمْيَ بَعْدَمَا عَلِمَهُ رَغْبَةً عَنْهُ فَإِنَّهَا نِعْمَةٌ تَرَكَهَا ".
حكم الحديث: حديث حسن بطرقه وشواهده وهذا إسناد ضعيف. (مسند احمد رقم الحديث ١٧٣٣٥ مُسْنَدُ الشَّامِيِّينَ  | حَدِيثُ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ)

عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه)). قال: هذا حديث غريب (سنن الترمذي حدیث نمبر 2487)

قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((الْحَلاَلُ بَيِّنٌ، وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا أُمُورٌ مُشْتَبِهَةٌ، فَمَنْ تَرَكَ مَا شُبِّهَ عَلَيْهِ مِنَ الإِثْمِ كَانَ لِمَا اسْتَبَانَ أَتْرَكَ، وَمَنِ اجْتَرَأَ عَلَى مَا يَشُكُّ فِيهِ مِنَ الإِثْمِ أَوْشَكَ أَنْ يُوَاقِعَ مَا اسْتَبَانَ، وَالْمَعَاصِي حِمَى اللَّهِ، مَنْ يَرْتَعْ حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكْ أَنْ يُوَاقِعَهُ)).  (الصحيح للبخاري حديث نمبر 2051)

كره تحريما العب بالنرد.... لأن من اشتغل به ذهب عناءه الدنيوي وعناءه الاخروي فهو حرام و كبيرة (رد المحتار على الدر المختار كتاب الحظر و الاباحة زكريا)

و عن أبي يوسف رحمه الله: من يديم النظر في اللعب و النرد و الشطرنج أخاف أن يصير فاسقا. (الفتاوى التاتارخانية ١٩٤/١٨ الفصل ١٨، زكريا جديد)

(٢) يطيب له الأجر عنده و عندهما يكره. (رد المحتار ٣٨٦/٦ كتاب الحظر و الإباحة)

 *كتبه العبد محمد زبير الندوي*
مورخہ 4/7/1440
رابطہ 9029189288

 *دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*
میں دعوے سے کہتا ہوں رات سونے سے پہلے اگر بیوی کی پیشانی پر بوسہ دیدو تو یقین جانیں وہ آپ کی محبت میں مسکراتے ہوۓ پرسکون نیند سوۓ گی، بیوی کی پیشانی پر بوسے سے عقیدت پیدا ہوتی ہے، بیوی اندر تک خود میں سکون اور اطمینان محسوس کرتی ہے، خود کو بے خوف محسوس کرتی یے، خود کو محفوظ ہاتھوں میں محسوس کرتی یے، خود کو امیر ترین عورت محسوس کرتی یے۔
بیوی کتنی ہی غصہ میں ہو، کیسا ہی جھگڑا ہو ایک بار پیشانی پر بوسہ بیوی کو اندر تک جھنجھوڑ دیتا یے اور ایسے موقعوں پر چند بیویاں تو شوہر کے اس عمل کو دیکھ کر خوشی سے رو بھی پڑتی ہیں۔
اسی طرح شہر سے باہر جارہے ہو تو جاتے وقت اسکو سینے سے لگاؤ اور پیشانی پر بوسہ دو، اس عمل سے آپ جتنا وقت بیوی سے دور رہو گے بیوی گھر میں سکون سے رہے گی، مسکراتی پھرے گی، لہلہاتی پھرے گی، چہچہاتی پھرے گی۔
اسی طرح خود پر لازم کرلو کہ کھانا بیوی کے ساتھ کھانا ہے، یا کم از کم دن میں ایک وقت کا کھانا بیوی کے ساتھ کھانا ہے، اگر یہ عمل شروع کریں گے تو یقین جانیں ایک وقت ایسا آۓ گا کہ اگر آپ کہیں مصروف ہیں تو آپ کی بیوی بھوکی سوجاۓ گی لیکن آپ کے بغیر ایک نوالہ پیٹ میں نہیں ڈالے گی اور یہ میاں بیوی کے درمیان محبت کی ایک خوبصورت دلیل ہے۔
کھانا کھاتے وقت ہاتھ سے دو نوالے بیوی کو کھلادیں، یہ عمل شوہر اور بیوی کے درمیان ُانس پیدا کرتا ہے، اگر بیوی کسی بات پر ناراض ہے تو ناراضگی کو دور کرنے میں بے حد مددگار ثابت ہوتا ہے، یہ عمل میاں اور بیوی کے درمیان محبت کو تقویت فراہم کرتا ہے۔
کھانا کھاتے وقت بیوی کے بناۓ ہوۓ کھانے کی دو الفاظ میں تعریف کریں، یہ بیوی کا حق ہے، اس سے بیوی کے اندر حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔
یہ دو چار باتیں تھیں جن پر عمل کرکے زندگی کو بہت زیادہ خوبصورت بنایا جاسکتا ہے، لوگ کہتے ہیں سالک شفیق باتیں تو خوبصورت لکھتے ہیں لیکن عملی طور پر مشکل ہے، ارے جناب کیسی مشکل ان اعمال کو کرنے میں ؟
نا ہمارے پیسے لگتے ہیں، نا ہمارا وقت ضایع ہوتا ہے، اور نا ہی کسی قسم کی کوئ مشکل پیش آتی یے، جناب زندگی کو خوبصورت بنانا پڑتا ہے، خوبصورت زندگی بازار میں نہیں ملتی، خود بنانا پڑتا ہے، بہت سے لوگ ہیں جو انا کے اندر یہ اعمال نہیں کرتے، ایک جگہ پڑھ رہا تھا رسول اللہﷺ پانی پینے کے لیے پیالے پر وہاں ہونٹ لگاتے تھے جہاں سے انکی زوجہ رضی اللہ عنھا نے ہونٹ لگا کر پانی پیا ہو۔
جناب اس دنیا کی تمام تر عزتوں کو اکھٹا کرلیا جاۓ تو رسول اللہﷺ کی نعلین مبارک میں لگی خاک مبارک کے ایک ذرے کی برابری نہیں کرسکتی، تو ذرا دیکھیں دونوں جہانوں کے سردار کا اپنی بیویوں کے ساتھ کیسا معاملہ تھا، ہم پڑھیں گے تو ہمیں معلوم ہوگا نا، ہمیں ہمارے آفس ورک، دوستوں اور موبائل سے فرصت نہیں ملتی، لہذا اپنی انا کو چھوڑ کر ان اعمالوں کو زندگی میں لانا بہت ضروری ہے تاکہ آپ کی ازدواجی زندگی ایک خوشگوار ازدواجی زندگی بن جاۓ، ورنہ دنیا میں کروڑوں لوگ زندگی گزار رہے ہیں، آپ بھی گزار لیں گے کیا فرق پڑتا ہے، میں اکثر کہتا ہوں زندگی کو گذارنا نہیں ہے، زندگی کو جینا ہے اور یہ کام اپنی انا کو چھوڑے بغیر ممکن نہیں، ہمیں اشرف المخلوقات بنایا گیا یے ورنہ جنسی خواہش جانور بھی پوری کرلیتا ہے ۔

Modren garments

It is, therefore, Haram to wear almost skin- tight clothes, mini dress, micro-dress , see-through, and all sorts of top- less garments...